محل تبلیغات شما

*اربعین حسینی اور ہماری زمہ داریاں*

 جابر بن عبد اللہ انصاری وہ پہلا زائر امام حسین علیہ السلام ہے جو واقعه عاشورا کے  بعد کربلا تشریف لائے اور  امام عالی مقام کی پہلی اربعین پر امام کی زیارت کا شرف حاصل کیا ۔ یوں زیارت اربعین کا سلسلہ حضرت جابر بن عبداللہ کی سنت بن گئی۔آج سے چودہ سو سال پہلے جس سنت کی بنیاد پیامبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معروف اور بزرگ صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری نے ڈالی وہ آج  لاکھوں کے اجتماع میں تبدیل ہوا ہے ۔ آج اربعین کا یہ عظیم الشان عزاداروں اور پیروان مکتب امامت و ولایت کا اجتماع در حقیقت یزید اور یزیدیوں کے پلید چہرے پہ تماچہ ہے ۔ محبان حسین بن علی علیہ السلام کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا اجتماع آج بھی یزید اور عبداللہ ابن زیاد کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ وہ  محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم و آپ کے اہل بیت اطہار کا ذکر مٹانا چاہتے تھے لیکن حسین بن علی علیہ السلام نے ان کا یہ پلید ارادہ 61 ھجری کو سر زمین کربلا میں دفن کردیا اور اپنے سرخ خون سے دشت کربلا کے سینے میں لا الہ الا اللہ لکھ کر بتا دیا کہ خداوند متعال کا دین اور شریعت محمدی تا قیام قیامت سر بلند رہے گا۔ 
مورخ وشاعر کا قلم یہ لکھنے پر مجبور ہے حسینیت زندہ باد یزیدیت مردہ باد اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے اصحاب یہاں تک کہ اپنی اولاد کی قربانی پیش کرکے کلمہ توحید کو بچاتے ہوئے انسانیت کو نجات دی جسے خواجہ معین الدین چشتی  نے اپنے لفظوں میں یوں بیان کیا :

 شاہ است حسین بادشاہ است حسین ،   دین است حسین دین پناہ است حسین

سرداد نداد دست دردست یزید    ۔ حقہ کہ بناء لاالہ است حسین

یہ وہ قافلہ ہے جس کو روکنے کی ارمان دل میں لے کر بنی امیہ و بنی عباس کے ظالم و جابر حکمران مرگۓ، عالم اسلام اور عرب دنیا کا ظالم وجابر جو اپنے آپ کو سیاہ و سفید کا مالک سمجھتا تھا، جو سر زمین عراق میں فرعون ، نمرود ،شداد کا کردار ادا کر رہا تھا، جس نے پیروان مولا علی علیہ السلام کو بالخصوص علماء کو چن چن کر شہید کیاوہ صدام ملعون بھی اس تمنا کو دل میں لے کر سولی کی بینھٹ چڑھ گیااور واصل جہنم ہوا  لیکن یہ قافلہ اپنی منزلیں طے کرتا رہا۔ آج پوری دنیا سے سید الشہداء کے عزادار پرانوں کی طرح اربعین حسینی کے دن کربلا کی سرزمین پر تشریف لاتے ہیں اور اپنے مولا سے تجدید بیعت کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ بے شک  اے فرزند زہراء ہم کربلا میں نہیں تھے لیکن آپ نے جس مقصد کے لئے اتنی بڑی قربانی دی اس کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے اور یہ بھی تجدید عہد کرتے ہیں کی اے بنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اے فاطمہ اہراء ہم تیرے جگر حسین علیہ السلام کو نہیں بولے ہیں ۔ ہم اس عظیم قربانی کا اس وقت حق ادا کر سکتے ہیں جب امام عالی مقام کے مقاصد کو دنیا تک پہنچائیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے سرزمین کربلا میں اسلام کی بقاء کی خاطر وہ عظیم قربانی دی جسکی پوری دنیا میں اثرات مترتب ہوئے ہیں ۔ دنیا کی وہ تمام تحریکیں جو ظلم و بربریت کے خلاف برسرپیکار ہیں اور مظلومین کے حق میں ظالموں کے مقابلے میں مرد میدان قرار پائے وہ حسین بن علی علیہ السلام کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ مختار ثقفی کی خون سید الشہداء کی انتقام کی تحریک ہو سے لے  کر توابین کی توبہ کی تحریک تک ،امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے انقلاب اسلامی سے شیخ زکزاکی کی افریکہ میں انقلاب کی تحریک تک اور بحرین کی اسلامی تحریک اور یمن میں انصار اللہ کا طاغوت زمان کے سامنے ڈٹ جانا ، اور لبنان میں حزب اللہ کا شیطان بزرگ کو شکست فحش دینا، اور پوری دنیا کے حریت پسندوں کا رہبر مسلمین جہان حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کی قیامت میں استکبار جہان اور یزیدی طاقتوں دھول چھٹانا اور ظالموں کو دنیا کے ہر محاذ میں شکست فحش سے دوچار کرنا یہ سب کربلا کی اس عظیم تحریک کا نتیجہ ہے جس کا نقشہ فرزند رسول و بتول نے کھینچا تھا۔

قارئین محترم یہ قافلہ تو اپنی منزلیں طے کرتا رہے گا اور تا قیام قیامت رواں دواں ریے گا لیکن ہماری کیا زمہ داریاں ہیں اس عظیم الشان اور  ملکوتی قافلہ کے متعلق ؟ ہم اس مقالہ میں کوشش کرینگے کہ اختصار کے ساتھ ان زمہ داریوں کی طرف مؤمنین اور عزاداروں کی توجہ مبذول کروائیں تاکہ یہ عالمی انقلاب  منجی بشریت عالم حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے انقلاب کا مقدمہ قرار پائے۔ 
*خواص کی زمہ داریاں*
حضرت سید الشہداء نے دشت کربلا میں جس مقصد کے لۓ جو عظیم قربانی دی  اس کو  دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی ، جس کو اگر انسان بھول بھی جائے تو محرم الحرام کا چاند انسان کو یاد دلاتا رہے گا۔ وہ عظیم مقصد جس کے خاطر امام عالی مقام نے اپنی جان کا نظرانہ ، بنی ہاشم کے خوبروح خوبصورت  جوانوں کی جانو کا نظرانہ ،اصحاب کی قربانی حتی کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی چادر کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا وہ عظیم مقصد ہمارے اوپر بالعموم اور خواص امت رسول پر بالخصوص زمہ داریاں عائد کرتا ہے 
1)  *قیام امام کا مقصد و ہدف کو سمجھنا*
علماء چونکہ امت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خواص اور انبیاء  علیہم السلام کے وارث  ہیں جیسا کہ خود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے  ,, العلماء ورثة الأنبياء،،
علماء انبیاء کے وارث ہیں
  یہ علماء کی اہم ترین زمہ داری ہے کہ وہ مقصد و ہدف قیام امام عالی مقام کو سمجھیں ۔ وہ مقصد جسکو خود حضرت حسین بن علی نے اپنے بھائی محمد بن حنیفہ کو خط کے ذریعے اگاہ کیا ۔ امام عالی مقام نے فرمایا !
,,إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب،،
ترجمہ : میں اپنے ہوا ہوس اور خوشگزرانی اور ظلم و فساد کے لۓ خروج نہیں کرتا بلکہ اپنے جد کی امت کی اصلاح کےلئے نکلا ہوں، میں امر المعروف اور نہی عن المنکرکرنا چاہتا ہوں اور اپنے  اور پدر کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں

2 ) *مقصد امام کی ترویج و تبلیغ*
امت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خواص کی اہم ترین زمہ داریوں میں سے ایک زمہ داری یہ ہے کہ مقصد سید الشہداء کو زائرین اربعین کے ذریعے دنیا کے ے ے تک پہنچایا۔ چونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے اربعین کے لۓ پوری دنیا سے عاشقانہ حسین بن علی علیہ السلام کربلا تشریف لاتے ہیں ۔ اس بہترین موقع سے استفادہ کرتے ہوئے مقصد امام کی ترویج و تبلیغ کی جا سکتی ہے اور مقصد امام کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچایا جا سکتا ہے۔
3) *زائرین کوانحرافات سےاگاہ کرنا*
چونکہ استکبار جہانی اور دشمن اہل بیت علیہم السلام اور منافقین کو عزاداروں کا یہ اجتماع گلے میں کانٹے کی طرح چھپتا ہے لہذا دشمن کی پوری کوشش ہوگی کہ مؤمنین اور زائرین کو مختلف شبھات انحرافات کے ذریعے گمراہ کرے ۔ ایسے میں علماء کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مؤمنین اور زائرین اباعبد اللہ کو ان شبہات و انحرافات سے اگاہ و آشنا کریں تاکہ دشمن اپنے ناپاک عزائم میں نامراد و ناکام ہوجائے ۔
4 ) *مظلومیت امام کو بیان کرنا*
علماء اسلام کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ امام عالی مقام و خاندان رسالت کی مظلومیت کو مؤمنین و زائرین ابا عبداللہ علیہ السلام کو بیان کریں۔ چونکہ یزید اور عبیداللہ ابن زیاد ایسی طرح یزیدیوں کہ ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ یہ دو شہزادوں کے درمیان تخت وتاج کے حصول کے لۓ جنگ تھی ۔ یزید بن معاویہ کےلئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور امام عالی مقام کا اس شارب الخمر  و بے دین شخص سے موازنہ کرتے ہیں ۔ یہاں خواص کا یہ وظیفہ بنتا ہے کہ وہ امام عالی مقام کی مظلومیت اور حقانیت کو بیان کریں تاکہ مسلمانوں پر واضح ہوجائے کہ امام علیہ السلام کا ایک شارب الخمر سے کسی صورت موازنہ اور مقایسہ درست نہیں ۔ امام حسین علیہ السلام نے خود یہ فرمایا تھا ,, مثلي لا يبايع مثله،،  یعنی مجھ جیسا یزید جیسے کی کبھی بھی بیعت نہیں کرسکتا۔ امام نے یہاں اپنا موازنہ و مقایسہ یزید سے نہیں کیا  بلکہ فرمایا کہ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔ پس علماء امت کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کو بیان کریں۔
5 ) *خطبات سید الشہداء کی تفسیر*
علماء و خواص کی اہم ترین زمہ داریوں میں سےایک ذمہ داری سید الشہداء کے خطبات کی تبین و تفسیر ہے۔ چونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام جب مدینہ سے نکلے ہیں تا آپکی شہادت تک آپ نے جو نورانی خطبات دئیے ان میں امام عالی مقام نے عظیم معارف( توحید ، رسالت ، امامت اور حقیقت دین )  کو بیان کئے ہیں ۔ پس یہ علماء کا وظیفہ ہے کہ وہ ان معارف الہیہ کو  مؤمنین اور زائرین ابا عبداللہ علیہ السلام کو بیان کریں ۔
*عوام و زائرین کی زمہ داریاں*
جس طرح سے اربعین حسینی کے متعلق خواص اور علماء امت کے زمہ داریاں ہیں ایسی طرح سے عوام و زائرین امام حسین علیہ السلام جو دنیا کے گوشہ وکنار سے عشق حسینی ست سرشار ہوکر اربعین حسینی اور اس عظیم الشان اجتماع میں شرکت کرتے ہیں انکو بھی اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ عوام الناس اور زائرین ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی کچھ ذمہ داریاں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔
1)  *آداب زیارت کی رعایت*  
اربعین حسینی میں پوری دنیا کے ے ے سے عاشقانہ ابا عبداللہ شرکت ہیں ان کی ایک اہم زمہ داری علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ آداب زیارت  بالخصوص حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے آداب کی رعایت کرنا ۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا چاہو تو امام عالی مقام کی زیارت اس حالت میں کرو کہ : 
1 ۔ غمگین ہوں۔،
2 ۔ غبار آلود ہوں۔،
3۔  بھوکے ہوں۔،
4 ۔پیاسے ہوں۔،
بال بکھرے اور پریشان ہوں۔،
کیونکہ امام علیہ السلام کو غمگینی ، پریشان ، غبار آلود ، پیاسہ و بھوکا شہید کیا گیا۔ اس طرح کی حالت میں اپنے حوائج کو طلب کریں اور کربلا کو اپنا وطن قرار نہ دیں۔
 2 ) *ماتم و عزاداری کرنا*
 زائرین امام حسین علیہ السلام کی ایک زم داری  اربعین حسینی کے موقع پر ماتم اور عزاداری کرنا ہے ۔ چونکہ محرم الحرام اور صفر کا مہینہ اہل بیت علیہم السلام کے لۓ غم اور مصیبت کا مہینہ ہے لہذا زائرین عبداللہ علیہ السلام پر لازم ہے کہ وہ بھی ان دو مہینوں خاص کر روز عاشور و اربعین کے دنوں میں شہداء کربلا  اور سید الشہداء کی شہادت کے اس عظیم مصیبت پر غمگین ہوں اور ماتم و عزاداری کریں ۔ چونکہ روایت میں نقل ہؤا ہے کہ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب محرم کا مہینہ آتا تھا تو کوئی بھی میرے پدر بزگوار کو ہنستے نہیں دیکھتا تھا اور ایسے ہی امام موسی کاظم علیہ السلام ہمیشہ غمگین رہتے تھے تا روز عاشور اور روز عاشور امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر گریہ کرتے اور فرماتے کہ آج کے روز (عاشور) امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا۔
3 ) *اخلاص کی رعایت*
 زائرین امام علیہ السلام کی ذمہ داریوں  میں سے ایک ذمہ داری جس کی رعایت ضروری ہے اخلاص اور خالص نیت کے ساتھ جلوس و مجالس اور عاشورہ و اربعین کی پیادہ روی  میں شرکت کرنا ہے۔ لہذا مجالس و عزاداری اور پیادہ روی کو فقط ایک رسم و عادت سمجھ کر انجام نہیں دینا چاہیے بلکہ خلوص نیت اور خداوند متعال کی رضا کے حصول کے لۓ انجام دینا چاہئے اور ریا و لوگوں کی خوشنودی سے  مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

4 ) *تسلیت دینا* 
کسی کو اس کی مصیبت پر تعزیت پیش کرنا مستحب عمل ہے ۔ یہ سنّت، اہلِ تشیّع میں رائج ہے اور مؤمنین ایک دوسرے کی مصیبت میں آپس میں ایک دوسرے کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔  پس زائرین اربعین و عزاداروں کی ایک زمہ داری ایک دوسرے کو امام کی شہادت کی تسلیت دینا ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہمارے شیعہ امام حسین علیہ السلام کی اس عظیم مصیبت پر اس جملے کی تکرار سے ایک دوسرے کو تعزیت پیش کرتے ہیں؛ وہ جملہ یہ ہے”اَعظَمَ اللهُ اُجُورَنا بمُصابنا بالحُسَین (علیه السلام ) وَ جَعَلَنا وَ اِیاکُم مِنَ الطالبینَ بثاره مع وَلیهِ الاِمام المَهدی مِن الِ مُحَمَدٍ علیهمُ السَلامُ.» 
ترجمہ: خداوند متعال امام حسین علیہ السلام پر سوگواری و عزاداری کی وجہ سے ہمارے اجر میں اضافہ کرے اور ہمیں امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ہمراہی میں امام کے خون کا بدلہ لینے والوں میں سے قرار دے
5 ) *زیارت کرنا و پڑھنا*
علقمہ بن خضرمی امام باقر علیہ السلام سے درخواست کرتے ہیں کہ مجھے ایک دعا تعلیم فرما دیں جو میں دور اور نزدیک سے پڑھ سکوں تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اے علقمہ ! جب بھی دعا پڑھنا چاہو تو اٹھ کر دو رکعت نماز بجا لاؤ اور اس کے بعد زیارت عاشورا پڑھ لیا کرو۔ پس اگر زیارت پڑھ لو گے تو گویا تم نے ان کلمات و الفاظ سے دعا کی ہے جو ملائکہ ، امام حسین کے زائر کے لیے دعا کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں اور خداوند متعال تمہارے لیے سو ہزار ہزار (دس کروڑ)درجات لکھے گا یا بلند کرے گا ، اور تم اس شخص کے مانند ہو گے جو امام حسین کے ہمراہ شہادت پا چکا ہو ، تا کہ امام حسین کے اصحاب و انصار کے درجات میں شریک ہو جائیں اور تم صرف اور صرف ان شہیدوں کے زمرے میں قرار پاؤ گے اور انہی شہیدوں کے عنوان سے پہچانے جاؤ گے جو امام حسین کے ہمراہ شہید ہوئے ہیں ، تمہارے لیے ہر نبی اور ہر رسول کی زیارت کا ثواب لکھا جائے گا اور ان تمام لوگوں کا ثواب آپ کے لیے لکھا جائے گا جنہوں نے امام حسین کی شہادت کے دن سے اب تک آپ کی زیارت کی ہے۔

6 ) *اربعین کے دن کے اعمال* 
زائرین اربعین حسینی کی ایک اہم ذمہ داری اربعین کے دن کے اعمال بجا لانا ہے۔ شیخ طوسی اپنی کتاب  مصباح المتہجد فرماتے ہیں کہ اربعین کے روز زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھنا مستحب ہے۔  وہ زیارت نامہ جو حضرت امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے جو امام صادق علیہ السلام سے ہم تک پہنچا ہے جو زیارت اربعین کے نام سے مشہور ہے۔
امام حسن عسکری علیہ فرماتے ہیں کہ مؤمن کی پانچ علامات ہیں
1 ۔ ایک دن میں اکیاون رکعت نمازیں پڑھنا۔،
2۔ نمازوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اونچی آواز کے ساتھ پڑھنا۔،
3۔ دائیں ہاتھ پہ عقیق کی انگوٹھی پہننا،
4۔ نماز میں پیشانی کو خاک پر رکھنا،
5۔ زیارت اربعین امام حسین علیہ السلام کا پڑھنا۔
حضرت آیت اللہ جوادی آملی اس روایت کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ زیارت اربعین کی اہمیت واجب اور مستحب نمازوں کے ردیف میں ہے۔ جس طرح سے نماز دین و شریعت کا ستون ہے ، زیارت اربعین و حادثہ کربلا ستون ولایت ہیں۔


منابع و حواجات 
1۔ يعقوب كلینی ، الکافی ، ج 1 ، ص 34۔
 2۔ علامہ مجلسی ، بحار الانوار ، ج 44 ، ص 329۔
3۔ ترجمہ فارسی کامل ایارات ، ص 430۔
4۔ امالی شیخ صدوق ، ج 2 ، ص 128۔
5۔ سفینہ البحار ، ج  2 ، ص 8۔
6۔ شیخ طوسی ، مصباح المتہجد ، ج 2 ، ص  714۔
7۔ شیخ طوسی ، مصباح المتہجد ، ج 2 ، ص 787۔
8۔ (شیخ طوسی ، مصباح المتہجد ، ج 2 ، ص 788۔
9۔ ( جوادی آملی ، شکوفایی عقل در پرتو نہضت حسینی ، ص 28

 

حضرت زہراء (س) کے گھر پر حملہ ایک تاریخی حقیقت :

این حسین کیست که عالم همه دیوانه او است

اربعین حسینی اور ہماری ذمہ داریاں

کی ,کے ,اور ,امام ,میں ,علیہ ,علیہ السلام ,امام حسین ,حسین علیہ ,عالی مقام ,امام عالی ,علیہ السلام فرماتے

مشخصات

تبلیغات

محل تبلیغات شما

آخرین ارسال ها

برترین جستجو ها

آخرین جستجو ها