محل تبلیغات شما



حضرت زھراء (س) کے گھر پر حملہ ایک تاریخی حقیقت:
یوں تو تاریخ انسانی و تاریخ بشریت میں کچھ حقائق ایسے ہیں جن کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، انہیں تاریخی حقائق میں سے ایک حقیقت حضرت فاطمہ زہراء (س) کا گھر جلانا ہے ۔ حضرت فاطمہ زہراء(س) کے گھر پر ایک ایسا حملہ ہوتا ہے جسکے نتیجے میں خود جگر رسول اللہ (ص) کی شان اقدس میں گستاخی ہوئی یہ حقیقت  کسی سے پوشیدہ نہیں ،  اس واقعے کو اکثر اہل سنت کے معتبر علماء(مؤرخین و محدثین) نے ذکر کیا ہے ۔لیکن بعض  عقل اور فکر کے اندھے اس واقعے کو جھوٹ اور بے بنیاد قرار دینےکی پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ واقعہ تاریخ میں رونما نہیں ہوا، اور جن اشخاص کی طرف اس قضیہ کی نسبت دی جاتی ہے  انہوں نے یہ کام انجام نہیں دیا ۔
پس اہل سنت کی معتبر کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں کہ جو ثابت کرتی ہیں کہ ابوبکر نے اہل بیت (ع) کے بعض دشمنوں کے ساتھ مل کر ، بیت وحی پر حملہ کیا تھا اور اس مقدس گھر کو آگ لگائی تھی، حالانکہ اس وقت حضرت فاطمہ زہرا (س) اپنے بیٹوں اور رسول خدا (ص) کے نواسوں کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھیں۔
ہم اس مقالہ میں  شیعہ و سنی محدثین اور مورخین کے وہ تاریخی شواہد پیش کرینگے( البتہ کسی کی توہین مقصود نہیں فقط اس حقیقت کو بیان کرنا ہے) جو انہوں نے اپنی مکتوبات میں لکھا ہے جو اس بات پر دلیل ہیں کہ رسول اکرم (ص) کا اس دنیا سے تشریف لے جانے کے کچھ ہی دن بعد کچھ لوگ حضرت فاطمہ(س) کے دروازے پر نہ فقط  آگ اور لکڑیاں لے کر آئے ، نہ فقط  گھر کے دروازے کو لگائی بلکہ اس سانحہ کی وجہ سے حضرت حضرت زہراء (س) کو بہت صدمہ پہنچا اور بعض اشخاص سے آپ آخر عمر مبارک تک ناراض رہیں اور حضرت محسن شہید ہوئے حتی حضرت فاطمہ(ص) کی شھادت میں بھی یہ یہ امر مؤثر رها.

حضرت زہراء (س) کے گھر  کے جلانے کے متعلق جب ہم کتب تاریخ اور روایی کا مطالعہ کرتے ہیں تو تین قسم کی روایات ہمیں ملتی ہیں ۔

1۔ وہ روایات جو گھر کے جلانے کے متعلق ہیں۔

2- وہ روایات جو جناب ابوبکر کی گھر کے جلانے پر ندامت کے متعلق ہیں۔

3۔ وہ روایات جو حضرت محسن بن علی کی شھادت کے متعلق ہیں۔ اور یہ تینوں قسم کی روایات کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے اور ان تینوں قسم کی روایات کو تحت عنوان بیعت جناب ابوبکر یا قضیہ سقیفہ میں ملتی ہیں۔

1 . امام جوينی (متوفی 730 ہجری) :

عالم اہل سنت جوینی کی روایت میں کیونکہ صدیقہ طاہرہ کے مقتول ہونے کے بارے صراحت کی گئی ہے، اسی لیے سب سے پہلے اسی روایت کو ذکر کیا جا رہا ہے۔

جوینی ، کہ جو شمس الدین ذہبی کا بھی استاد ہے، اس نے رسول خدا (ص) سے ایسے روایت کو نقل کیا ہے کہ:

ایک دن رسول خدا بیٹھے ہوئے تھے کہ حسن ابن علی انکے پاس آئے، رسول خدا کی نگاہ جونہی اپنے نواسے حسن پر پڑی، آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے، پھر حسين ابن علی رسول خدا کے پاس آئے، رسول خدا نے دوبارہ گریہ کرنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد جناب فاطمہ اور حضرت امیر بھی وہاں آئے تو رسول خدا نے ان دونوں کو بھی دیکھتے ہی اشک بہانا شروع کر دیا۔ جب رسول خدا سے حضرت فاطمہ پر گریہ کرنے کے سبب کو پوچھا گیا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ:

وَ أَنِّي لَمَّا رَأَيْتُهَا ذَكَرْتُ مَا يُصْنَعُ بِهَا بَعْدِي كَأَنِّي بِهَا وَ قَدْ دَخَلَ الذُّلُّ في بَيْتَهَا وَ انْتُهِكَتْ حُرْمَتُهَا وَ غُصِبَتْ حَقَّهَا وَ مُنِعَتْ إِرْثَهَا وَ كُسِرَ جَنْبُهَا [وَ كُسِرَتْ جَنْبَتُهَا] وَ أَسْقَطَتْ جَنِينَهَا وَ هِيَ تُنَادِي يَا مُحَمَّدَاهْ فَلَا تُجَابُ وَ تَسْتَغِيثُ فَلَا تُغَاثُ . فَتَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَلْحَقُنِي مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَتَقْدَمُ عَلَيَّ مَحْزُونَةً مَكْرُوبَةً مَغْمُومَةً مَغْصُوبَةً مَقْتُولَة،

فَأَقُولُ عِنْدَ ذَلِكَ اللَّهُمَّ الْعَنْ مَنْ ظَلَمَهَا وَ عَاقِبْ مَنْ غَصَبَهَا وَ ذَلِّلْ مَنْ أَذَلَّهَا وَ خَلِّدْ فِي نَارِكَ مَنْ ضَرَبَ جَنْبَهَا حَتَّي أَلْقَتْ وَلَدَهَا فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ آمِين .

جب میں نے فاطمہ کو دیکھا تو مجھے ایک دم سے وہ تمام مظالم یاد آ گئے کہ جو میرے بعد اس پر ڈھائے جائیں گے۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ ذلت اسکے گھر میں داخل ہوئی ہے، اسکی حرمت کو پامال کیا گیا ہے، اسکے حق کو غصب کیا گیا ہے،اسکی میراث کو اس سے دور کیا گیا ہے، اسکے پہلو کو زخمی اور اسکے بچے کو سقط کیا گیا ہے، جبکہ وہ بار بار ندا اور فریاد کر رہی ہو گی: وا محمداه ! ،

لیکن کوئی بھی اسکی فریاد سننے والا نہیں ہو گا، وہ مدد کے لیے پکار رہی ہو گی، لیکن کوئی بھی اسکی مدد نہیں کرے گا۔

وہ میرے خاندان میں سے سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملے گی، اس حال میں میرے پاس آئے گی کہ وہ بہت محزون، غمگین اور شہید کی گئی ہو گی۔

یہ دیکھ کر میں کہوں گا کہ: خداوندا جس نے بھی اس پر ظلم کیا ہے، اس پر لعنت فرما، عذاب کر اس کو کہ جس نے اسکے حق کو غصب کیا ہے، ذلیل و خوار کر اسکو کہ جس نے اسے ذلیل کیا ہے اور جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رکھ ، جس نے اسکے پہلو کو زخمی کر کے اسکے بچے کو سقط کیا ہے۔ رسول خدا کی اس لعنت و نفرین کو سن کر ملائکہ آمین کہیں گے۔(1)

فرائد السمطين ج2 ، ص 34 و 35

ذہبی نے اپنے استاد امام الحرمین جوینی کے حالات کے بارے میں کہا ہے کہ:

وسمعت من الامام المحدث الاوحد الاكمل فخر الاسلام صدر الدين ابراهيم بن محمد بن المؤيد بن حمويه الخراساني الجويني . وكان شديد الاعتناء بالرواية وتحصيل الاجزاء حسن القراءة مليح الشكل مهيبا دينا صالحا .

اور میں نے بے نظیر امام، محدث کامل، فخر اسلام صدر الدين ابراہيم ابن محمد ابن المويد ابن حمويہ الخراسانی الجوينی سے روايت کو  سنا تھا ۔۔۔۔۔ وہ روایات اور احادیث کی کتب کو بہت زیادہ اہمیت دیا کرتے تھے، وہ خوبصورت چہرے اور اچھی آواز کے مالک تھے کہ جو با ہیبت، دین دار اور ایک صالح انسان تھے۔(2)

تذكرة الحفاظ ج 4 ، ص 1505- 1506 ، رقم 24 .

 

2۔ علامہ مجلسی بحار الانوار میں لکھتے ہیں :
أقبل عمر فى جمع كثير إلى منزل على بن أبي طالب فطالبه بالخروج فأبى فدعا عمر بحطب ونار .،،
عمر بہت سارے افراد کے ساتھ علی بن ابی طالب کے گھر آئے اور امام سے کہا کہ وہ گھر سے باہر آجائیں امام باہر نہیں آئے  اس دوران عمر نے لکڑی اور آگ طلب کیا۔(3)

3۔ شھرستانی الملل ولنحل میں لکھتے ہیں:
وما كان فى الدار غير على وفاطمة والحسن والحسين أحرقوا دارها بمن فيها.
اس دن حضرت علی حضرت فاطمہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کے علاوہ کوئی گھر میں نہیں تھا اس دوران عمر نے حکم دیا کہ اس گھر کو گھر والوں کے ساتھ آگ لگا دو۔ (4)
طبری لکھتے ہیں :
والله لاحرقن عليكم .
خدا کی قسم آگ کو تمہارے اوپر مسلط کردوں گا۔(5)
اس دوران حضرت زہراء (س) گھر سے نکلیں اور پست دروازے پر رکیں۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں۔
خرجت فاطمة بنت رسول الله(ص) إليهم  فوقفت على الباب لا عهد لى بقوم أسوأمحضرامنكم تركتم رسول الله(ص) جنازة بين أيدينا وقطعتم أمركم فيما بينكم فلم تؤمرونا ولم تروا لنا حقنا كأنكم لم تعلموا ما قال يوم غدير خم والله لقد عقد له يومئذ الولاء ليقطع منكم بذلك منها الرجاء  ولكنكم قطعتم الأسباب بينكم و بين نبيكم والله حسيب بيننا وبينكم فى الدنيا والأخرة.
میں اپنی پوری زندگی میں تم جیسی بے وفا و بے وفاتر قوم کو نہیں پہچانتی کہ رسول اللہ (ص) کے جنازے کو ہمارے سامنے چھوڑ کر اپنے کام میں سرگرم اور خلافت کو حاصل کرنے لگے گۓ ، نہ ہم سے کوئی مشورہ کیا اور نہ ہمارے حق کے قائل ہوۓ، گویا تم غدیر خم کے بارے کچھ نہیں جانتے۔ خدا کی قسم اس دن امر ولایت کو محکم کیا کہ تمہارے لئے کو طمع و امید نہیں چھوڑی لیکن تم نے اس کی رعایت نہیں کی  اور ہر رشتہ ورابطہ کو اپنے پیغمبر سے قطع کیا۔  البتہ خداوند متعال ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرےگا۔( 6)
4۔ ابن عبد ربہ عقد الفرید میں لکھتے ہیں : 
فأقبل بقبس من نار على أن يضرم عليهم  الدار
عمر نے آگ کا ایک شعلہ لے کر حضرت زہراء (س) کے گھر کو جلانے کا قصد کیا۔(5)
شہرستانی لکھتے ہیں عمر نے کہا :
أحرقو ا دارها بمن فيها 
گھر کو  گھر والوں کے ساتھ جلا دو۔ (7)
اس وقت حضرت زہرا ء (س) نے عمر کو دیکھا اور عمر سے کہا :
يا ابن الخطاب أجئت لتحرق دارنا.؟
اے ابن خطاب کیا تم ہمارا گھر جلانے آئے ہو۔؟
حضرت عمر نے کہا:
نعم أو تدخلوا فيما دخلت فيه الأمة
جى ! مگر یہ کہ ابوبکر کی بیعت کرو جسے کہ امت نے بیعت کی ہے۔(8)
اس وقت حضرت زہراء (س) نے درگاہ الھی  میں شکایت کرتیں ہیں اور فرماتیں ہیں!
يا أبتاه! يا رسول الله (ص)! أنظر ماذا لقينا بعدك من ابن الخطاب وابن أبي قحافة ،، 
اے بابا ! اے رسول اللہ (ص) ! دیکھو آپ کے بعد ہم نے ابن خطاب اور ابن ابی قحافہ کس قدر ظلم دیکھے (9)

ابن عبد ربّہ نے کتاب العقد الفريد میں لکھا ہے کہ:

الذين تخلّفوا عن بيعة أبي بكر: عليّ والعباس، وابير، وسعد بن عبادة، فأمّا علي والعباس وابير فقعدوا في بيت فاطمة حتّي بعث اليهم أبو بكر عمر بن الخطاب ليخرجوا من بيت فاطمة وقال له: إن أبوا فقاتلهم . فأقبل عمر بقبس من نار علي أن يضرم عليهم الدار فلقيته فاطمة فقالت: يابن الخطاب ! أجئت لتحرق دارنا ؟ قال : نعم أو تدخلوا فيما دخلت فيه الأمة فخرج علي حتي دخل علي أبي بكر .

ابوبکر نے عمر ابن خطاب کو بھیجا تا کہ جائے اور ان لوگوں کو فاطمہ کے گھر سے باہر نکال دے اور اسے کہا کہ: اگر وہ تمہاری بات ماننے سے انکار کریں اور گھر سے باہر نہ آئیں تو انکے ساتھ جنگ کرے۔ عمر ایک جلتی ہوئی مشعل ہاتھ میں لیے فاطمہ کے گھر کو آگ لگانے کی نیت سے ، ان لوگوں کی طرف گیا۔ فاطمہ نے کہا: اے خطاب کے بیٹے کیا تو ہمارے گھر کو آگ لگانے کے لیے آیا ہے ؟ عمر نے کہا: ہاں، مگر یہ کہ تم بھی وہی کام (ابوبکر کی بیعت) کرو جو اس امت نے انجام دیا ہے۔۔۔۔۔(12)

5 . علامہ بلاذری (متوفی 270 ہجری) :

إن أبابكر آرسل إلي علي يريد البيعة ، فلم يبايع ، فجاء عمر و معه فتيلة . فتلقته فاطمة علي الباب فقالت فاطمة : يابن الخطاب ! أتراك محرّقا عليّ بابي ؟! قال : نعم ، و ذلك أقوي فيما جاء به أبوك .

ابوبکر نے کچھ لوگوں کو علی سے بیعت لینے کے لیے بھیجا، جب علی نے ابوبکر کی بیعت نہ کی تو اس نے عمر کو حکم دیا کہ جاؤ اور علی کو میرے پاس لے کر آؤ۔ عمر ہاتھ میں آگ جلتی مشعل لے کر فاطمہ کے گھر کی طرف گیا۔ فاطمہ گھر کے دروازے کے پیچھے آئی اور کہا: اے خطّاب کے بیٹے ! کیا تو میرے گھر کے دروازے کو آگ لگانا چاہتا ہے ؟ عمر نے کہا: ہاں ! میرا یہ کام جو کچھ (شریعت) تمہارے والد لے کر آئے تھے، اسکو محکم تر کرے گا(13)

6 . ابن قتيبہ دينوری (متوفی 276 ہجری) :

وإن أبا بكر رضي الله عنه تفقد قوما تخلفوا عن بيعته عند علي كرم الله وجهه ، فبعث إليهم عمر ، فجاء فناداهم وهم في دار علي ، فأبوا أن يخرجوا فدعا بالحطب وقال : والذي نفسه عمر بيده . لتخرجن أو لأحرقنها علي من فيها ، فقيل له : يا أبا حفص ، إن فيها فاطمة ؟ فقال : وإن
ابوبکر نے ، ان لوگوں کہ جہنوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی، وہی کہ جو علی کے پاس جمع ہوئے تھے، عمر کو ان لوگوں کے پاس بھیجا، عمر نے انکو بلند آواز سے پکارا، لیکن انھوں نے اسکی کوئی پروا نہیں کی اور گھر سے باہر نہ نکلے۔ عمر نے ایندھن منگوایا اور کہا: اس خدا کی قسم کہ جسکے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، گھر سے باہر آؤ، ورنہ میں اس گھر کو سب گھر والوں سمیت آگ لگا دوں گا۔ عمر کو کہا گیا کہ اے ابا حفص ! اس گھر میں اس وقت فاطمہ بھی موجود ہیں، عمر نے کہا: ہوتی ہے تو ہوتی رہے !!!(14)

7. ابن ابی شيبہ (متوفی 239 ہجری) :

عالم اہل سنت ابن ابی شیبہ ، محمد ابن اسماعیل بخاری کا استاد ہے، اس نے اپنی کتاب المصنف میں لکھا ہے کہ:

أنه حين بويع لأبي بكر بعد رسول الله ( ص ) كان علي وابير يدخلان علي فاطمة بنت رسول الله ( ص ) فيشاورونها ويرتجعون في أمرهم ، فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتي دخل علي فاطمة فقال : يا بنت رسول الله ( ص ) ! والله ما من أحد أحب إلينا من أبيك ، وما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك ، وأيم الله ما ذاك بمانعي إن اجتمع هؤلاء النفر عندك ، إن أمرتهم أن يحرق عليهم البيت ، قال : فلما خرج عمر جاؤوها فقالت : تعلمون أن عمر قد جاءني وقد حلف بالله لئن عدتم ليحرقن عليكم البيت وأيم الله ليمضين لما حلف عليه

جب مدینہ کے لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی، علی اور زبیر کے فاطمہ کے گھر میں اسی بارے میں گفتگو اور مشورہ کرنے کے بارے میں جب عمر ابن خطاب کو پتا چلا تو وہ فاطمہ کے گھر آیا اور کہا: اے بنت رسول اللہ ! ہمارے لیے محبوب ترین انسان تمہارے والد ہیں اور انکے بعد خود تم !!! لیکن خدا کی قسم یہ محبت مجھے اس کام سے منع نہیں کرے گی کہ تمہارے گھر میں جمع ہونے والوں کی وجہ سے ، میں حکم دوں کہ اس گھر کو آگ لگا دیں۔ [یعنی میں آپکے رسول خدا کی بیٹی ہونے کے باوجود بھی، اس گھر کو آگ لگا دوں گا]

عمر یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ جب علی ، زبیر کے ساتھ اپنے گھر واپس آئے تو بنت رسول خدا نے علی اور زبیر کو بتایا کہ: عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر آپ لوگ دوبارہ اس گھر میں اکٹھے ہوئے تو میں اس گھر کو آگ لگا دوں گا، (حضرت زہرا نے کہا) خدا کی قسم ! وہ اپنی قسم پر عمل کر کے ہی رہے گا !

المصنف ، ج8 ، ص 572

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


*این حسین کیست که عالم همه دیوانہ او است*



*اربعین حسینی اور ہماری زمہ داریاں*

 جابر بن عبد اللہ انصاری وہ پہلا زائر امام حسین علیہ السلام ہے جو واقعه عاشورا کے  بعد کربلا تشریف لائے اور  امام عالی مقام کی پہلی اربعین پر امام کی زیارت کا شرف حاصل کیا ۔ یوں زیارت اربعین کا سلسلہ حضرت جابر بن عبداللہ کی سنت بن گئی۔آج سے چودہ سو سال پہلے جس سنت کی بنیاد پیامبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معروف اور بزرگ صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری نے ڈالی وہ آج  لاکھوں کے اجتماع میں تبدیل ہوا ہے ۔ آج اربعین کا یہ عظیم الشان عزاداروں اور پیروان مکتب امامت و ولایت کا اجتماع در حقیقت یزید اور یزیدیوں کے پلید چہرے پہ تماچہ ہے ۔ محبان حسین بن علی علیہ السلام کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا اجتماع آج بھی یزید اور عبداللہ ابن زیاد کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ وہ  محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم و آپ کے اہل بیت اطہار کا ذکر مٹانا چاہتے تھے لیکن حسین بن علی علیہ السلام نے ان کا یہ پلید ارادہ 61 ھجری کو سر زمین کربلا میں دفن کردیا اور اپنے سرخ خون سے دشت کربلا کے سینے میں لا الہ الا اللہ لکھ کر بتا دیا کہ خداوند متعال کا دین اور شریعت محمدی تا قیام قیامت سر بلند رہے گا۔ 
مورخ وشاعر کا قلم یہ لکھنے پر مجبور ہے حسینیت زندہ باد یزیدیت مردہ باد اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے اصحاب یہاں تک کہ اپنی اولاد کی قربانی پیش کرکے کلمہ توحید کو بچاتے ہوئے انسانیت کو نجات دی جسے خواجہ معین الدین چشتی  نے اپنے لفظوں میں یوں بیان کیا :

 شاہ است حسین بادشاہ است حسین ،   دین است حسین دین پناہ است حسین

سرداد نداد دست دردست یزید    ۔ حقہ کہ بناء لاالہ است حسین

یہ وہ قافلہ ہے جس کو روکنے کی ارمان دل میں لے کر بنی امیہ و بنی عباس کے ظالم و جابر حکمران مرگۓ، عالم اسلام اور عرب دنیا کا ظالم وجابر جو اپنے آپ کو سیاہ و سفید کا مالک سمجھتا تھا، جو سر زمین عراق میں فرعون ، نمرود ،شداد کا کردار ادا کر رہا تھا، جس نے پیروان مولا علی علیہ السلام کو بالخصوص علماء کو چن چن کر شہید کیاوہ صدام ملعون بھی اس تمنا کو دل میں لے کر سولی کی بینھٹ چڑھ گیااور واصل جہنم ہوا  لیکن یہ قافلہ اپنی منزلیں طے کرتا رہا۔ آج پوری دنیا سے سید الشہداء کے عزادار پرانوں کی طرح اربعین حسینی کے دن کربلا کی سرزمین پر تشریف لاتے ہیں اور اپنے مولا سے تجدید بیعت کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ بے شک  اے فرزند زہراء ہم کربلا میں نہیں تھے لیکن آپ نے جس مقصد کے لئے اتنی بڑی قربانی دی اس کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے اور یہ بھی تجدید عہد کرتے ہیں کی اے بنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اے فاطمہ اہراء ہم تیرے جگر حسین علیہ السلام کو نہیں بولے ہیں ۔ ہم اس عظیم قربانی کا اس وقت حق ادا کر سکتے ہیں جب امام عالی مقام کے مقاصد کو دنیا تک پہنچائیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے سرزمین کربلا میں اسلام کی بقاء کی خاطر وہ عظیم قربانی دی جسکی پوری دنیا میں اثرات مترتب ہوئے ہیں ۔ دنیا کی وہ تمام تحریکیں جو ظلم و بربریت کے خلاف برسرپیکار ہیں اور مظلومین کے حق میں ظالموں کے مقابلے میں مرد میدان قرار پائے وہ حسین بن علی علیہ السلام کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ مختار ثقفی کی خون سید الشہداء کی انتقام کی تحریک ہو سے لے  کر توابین کی توبہ کی تحریک تک ،امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے انقلاب اسلامی سے شیخ زکزاکی کی افریکہ میں انقلاب کی تحریک تک اور بحرین کی اسلامی تحریک اور یمن میں انصار اللہ کا طاغوت زمان کے سامنے ڈٹ جانا ، اور لبنان میں حزب اللہ کا شیطان بزرگ کو شکست فحش دینا، اور پوری دنیا کے حریت پسندوں کا رہبر مسلمین جہان حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کی قیامت میں استکبار جہان اور یزیدی طاقتوں دھول چھٹانا اور ظالموں کو دنیا کے ہر محاذ میں شکست فحش سے دوچار کرنا یہ سب کربلا کی اس عظیم تحریک کا نتیجہ ہے جس کا نقشہ فرزند رسول و بتول نے کھینچا تھا۔

قارئین محترم یہ قافلہ تو اپنی منزلیں طے کرتا رہے گا اور تا قیام قیامت رواں دواں ریے گا لیکن ہماری کیا زمہ داریاں ہیں اس عظیم الشان اور  ملکوتی قافلہ کے متعلق ؟ ہم اس مقالہ میں کوشش کرینگے کہ اختصار کے ساتھ ان زمہ داریوں کی طرف مؤمنین اور عزاداروں کی توجہ مبذول کروائیں تاکہ یہ عالمی انقلاب  منجی بشریت عالم حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے انقلاب کا مقدمہ قرار پائے۔ 
*خواص کی زمہ داریاں*
حضرت سید الشہداء نے دشت کربلا میں جس مقصد کے لۓ جو عظیم قربانی دی  اس کو  دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی ، جس کو اگر انسان بھول بھی جائے تو محرم الحرام کا چاند انسان کو یاد دلاتا رہے گا۔ وہ عظیم مقصد جس کے خاطر امام عالی مقام نے اپنی جان کا نظرانہ ، بنی ہاشم کے خوبروح خوبصورت  جوانوں کی جانو کا نظرانہ ،اصحاب کی قربانی حتی کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی چادر کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا وہ عظیم مقصد ہمارے اوپر بالعموم اور خواص امت رسول پر بالخصوص زمہ داریاں عائد کرتا ہے 
1)  *قیام امام کا مقصد و ہدف کو سمجھنا*
علماء چونکہ امت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خواص اور انبیاء  علیہم السلام کے وارث  ہیں جیسا کہ خود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے  ,, العلماء ورثة الأنبياء،،
علماء انبیاء کے وارث ہیں
  یہ علماء کی اہم ترین زمہ داری ہے کہ وہ مقصد و ہدف قیام امام عالی مقام کو سمجھیں ۔ وہ مقصد جسکو خود حضرت حسین بن علی نے اپنے بھائی محمد بن حنیفہ کو خط کے ذریعے اگاہ کیا ۔ امام عالی مقام نے فرمایا !
,,إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب،،
ترجمہ : میں اپنے ہوا ہوس اور خوشگزرانی اور ظلم و فساد کے لۓ خروج نہیں کرتا بلکہ اپنے جد کی امت کی اصلاح کےلئے نکلا ہوں، میں امر المعروف اور نہی عن المنکرکرنا چاہتا ہوں اور اپنے  اور پدر کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں

2 ) *مقصد امام کی ترویج و تبلیغ*
امت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خواص کی اہم ترین زمہ داریوں میں سے ایک زمہ داری یہ ہے کہ مقصد سید الشہداء کو زائرین اربعین کے ذریعے دنیا کے ے ے تک پہنچایا۔ چونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے اربعین کے لۓ پوری دنیا سے عاشقانہ حسین بن علی علیہ السلام کربلا تشریف لاتے ہیں ۔ اس بہترین موقع سے استفادہ کرتے ہوئے مقصد امام کی ترویج و تبلیغ کی جا سکتی ہے اور مقصد امام کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچایا جا سکتا ہے۔
3) *زائرین کوانحرافات سےاگاہ کرنا*
چونکہ استکبار جہانی اور دشمن اہل بیت علیہم السلام اور منافقین کو عزاداروں کا یہ اجتماع گلے میں کانٹے کی طرح چھپتا ہے لہذا دشمن کی پوری کوشش ہوگی کہ مؤمنین اور زائرین کو مختلف شبھات انحرافات کے ذریعے گمراہ کرے ۔ ایسے میں علماء کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مؤمنین اور زائرین اباعبد اللہ کو ان شبہات و انحرافات سے اگاہ و آشنا کریں تاکہ دشمن اپنے ناپاک عزائم میں نامراد و ناکام ہوجائے ۔
4 ) *مظلومیت امام کو بیان کرنا*
علماء اسلام کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ امام عالی مقام و خاندان رسالت کی مظلومیت کو مؤمنین و زائرین ابا عبداللہ علیہ السلام کو بیان کریں۔ چونکہ یزید اور عبیداللہ ابن زیاد ایسی طرح یزیدیوں کہ ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ یہ دو شہزادوں کے درمیان تخت وتاج کے حصول کے لۓ جنگ تھی ۔ یزید بن معاویہ کےلئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور امام عالی مقام کا اس شارب الخمر  و بے دین شخص سے موازنہ کرتے ہیں ۔ یہاں خواص کا یہ وظیفہ بنتا ہے کہ وہ امام عالی مقام کی مظلومیت اور حقانیت کو بیان کریں تاکہ مسلمانوں پر واضح ہوجائے کہ امام علیہ السلام کا ایک شارب الخمر سے کسی صورت موازنہ اور مقایسہ درست نہیں ۔ امام حسین علیہ السلام نے خود یہ فرمایا تھا ,, مثلي لا يبايع مثله،،  یعنی مجھ جیسا یزید جیسے کی کبھی بھی بیعت نہیں کرسکتا۔ امام نے یہاں اپنا موازنہ و مقایسہ یزید سے نہیں کیا  بلکہ فرمایا کہ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔ پس علماء امت کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کو بیان کریں۔
5 ) *خطبات سید الشہداء کی تفسیر*
علماء و خواص کی اہم ترین زمہ داریوں میں سےایک ذمہ داری سید الشہداء کے خطبات کی تبین و تفسیر ہے۔ چونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام جب مدینہ سے نکلے ہیں تا آپکی شہادت تک آپ نے جو نورانی خطبات دئیے ان میں امام عالی مقام نے عظیم معارف( توحید ، رسالت ، امامت اور حقیقت دین )  کو بیان کئے ہیں ۔ پس یہ علماء کا وظیفہ ہے کہ وہ ان معارف الہیہ کو  مؤمنین اور زائرین ابا عبداللہ علیہ السلام کو بیان کریں ۔
*عوام و زائرین کی زمہ داریاں*
جس طرح سے اربعین حسینی کے متعلق خواص اور علماء امت کے زمہ داریاں ہیں ایسی طرح سے عوام و زائرین امام حسین علیہ السلام جو دنیا کے گوشہ وکنار سے عشق حسینی ست سرشار ہوکر اربعین حسینی اور اس عظیم الشان اجتماع میں شرکت کرتے ہیں انکو بھی اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ عوام الناس اور زائرین ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی کچھ ذمہ داریاں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔
1)  *آداب زیارت کی رعایت*  
اربعین حسینی میں پوری دنیا کے ے ے سے عاشقانہ ابا عبداللہ شرکت ہیں ان کی ایک اہم زمہ داری علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ آداب زیارت  بالخصوص حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے آداب کی رعایت کرنا ۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا چاہو تو امام عالی مقام کی زیارت اس حالت میں کرو کہ : 
1 ۔ غمگین ہوں۔،
2 ۔ غبار آلود ہوں۔،
3۔  بھوکے ہوں۔،
4 ۔پیاسے ہوں۔،
بال بکھرے اور پریشان ہوں۔،
کیونکہ امام علیہ السلام کو غمگینی ، پریشان ، غبار آلود ، پیاسہ و بھوکا شہید کیا گیا۔ اس طرح کی حالت میں اپنے حوائج کو طلب کریں اور کربلا کو اپنا وطن قرار نہ دیں۔
 2 ) *ماتم و عزاداری کرنا*
 زائرین امام حسین علیہ السلام کی ایک زم داری  اربعین حسینی کے موقع پر ماتم اور عزاداری کرنا ہے ۔ چونکہ محرم الحرام اور صفر کا مہینہ اہل بیت علیہم السلام کے لۓ غم اور مصیبت کا مہینہ ہے لہذا زائرین عبداللہ علیہ السلام پر لازم ہے کہ وہ بھی ان دو مہینوں خاص کر روز عاشور و اربعین کے دنوں میں شہداء کربلا  اور سید الشہداء کی شہادت کے اس عظیم مصیبت پر غمگین ہوں اور ماتم و عزاداری کریں ۔ چونکہ روایت میں نقل ہؤا ہے کہ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب محرم کا مہینہ آتا تھا تو کوئی بھی میرے پدر بزگوار کو ہنستے نہیں دیکھتا تھا اور ایسے ہی امام موسی کاظم علیہ السلام ہمیشہ غمگین رہتے تھے تا روز عاشور اور روز عاشور امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر گریہ کرتے اور فرماتے کہ آج کے روز (عاشور) امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا۔
3 ) *اخلاص کی رعایت*
 زائرین امام علیہ السلام کی ذمہ داریوں  میں سے ایک ذمہ داری جس کی رعایت ضروری ہے اخلاص اور خالص نیت کے ساتھ جلوس و مجالس اور عاشورہ و اربعین کی پیادہ روی  میں شرکت کرنا ہے۔ لہذا مجالس و عزاداری اور پیادہ روی کو فقط ایک رسم و عادت سمجھ کر انجام نہیں دینا چاہیے بلکہ خلوص نیت اور خداوند متعال کی رضا کے حصول کے لۓ انجام دینا چاہئے اور ریا و لوگوں کی خوشنودی سے  مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

4 ) *تسلیت دینا* 
کسی کو اس کی مصیبت پر تعزیت پیش کرنا مستحب عمل ہے ۔ یہ سنّت، اہلِ تشیّع میں رائج ہے اور مؤمنین ایک دوسرے کی مصیبت میں آپس میں ایک دوسرے کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔  پس زائرین اربعین و عزاداروں کی ایک زمہ داری ایک دوسرے کو امام کی شہادت کی تسلیت دینا ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہمارے شیعہ امام حسین علیہ السلام کی اس عظیم مصیبت پر اس جملے کی تکرار سے ایک دوسرے کو تعزیت پیش کرتے ہیں؛ وہ جملہ یہ ہے”اَعظَمَ اللهُ اُجُورَنا بمُصابنا بالحُسَین (علیه السلام ) وَ جَعَلَنا وَ اِیاکُم مِنَ الطالبینَ بثاره مع وَلیهِ الاِمام المَهدی مِن الِ مُحَمَدٍ علیهمُ السَلامُ.» 
ترجمہ: خداوند متعال امام حسین علیہ السلام پر سوگواری و عزاداری کی وجہ سے ہمارے اجر میں اضافہ کرے اور ہمیں امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ہمراہی میں امام کے خون کا بدلہ لینے والوں میں سے قرار دے
5 ) *زیارت کرنا و پڑھنا*
علقمہ بن خضرمی امام باقر علیہ السلام سے درخواست کرتے ہیں کہ مجھے ایک دعا تعلیم فرما دیں جو میں دور اور نزدیک سے پڑھ سکوں تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اے علقمہ ! جب بھی دعا پڑھنا چاہو تو اٹھ کر دو رکعت نماز بجا لاؤ اور اس کے بعد زیارت عاشورا پڑھ لیا کرو۔ پس اگر زیارت پڑھ لو گے تو گویا تم نے ان کلمات و الفاظ سے دعا کی ہے جو ملائکہ ، امام حسین کے زائر کے لیے دعا کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں اور خداوند متعال تمہارے لیے سو ہزار ہزار (دس کروڑ)درجات لکھے گا یا بلند کرے گا ، اور تم اس شخص کے مانند ہو گے جو امام حسین کے ہمراہ شہادت پا چکا ہو ، تا کہ امام حسین کے اصحاب و انصار کے درجات میں شریک ہو جائیں اور تم صرف اور صرف ان شہیدوں کے زمرے میں قرار پاؤ گے اور انہی شہیدوں کے عنوان سے پہچانے جاؤ گے جو امام حسین کے ہمراہ شہید ہوئے ہیں ، تمہارے لیے ہر نبی اور ہر رسول کی زیارت کا ثواب لکھا جائے گا اور ان تمام لوگوں کا ثواب آپ کے لیے لکھا جائے گا جنہوں نے امام حسین کی شہادت کے دن سے اب تک آپ کی زیارت کی ہے۔

6 ) *اربعین کے دن کے اعمال* 
زائرین اربعین حسینی کی ایک اہم ذمہ داری اربعین کے دن کے اعمال بجا لانا ہے۔ شیخ طوسی اپنی کتاب  مصباح المتہجد فرماتے ہیں کہ اربعین کے روز زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھنا مستحب ہے۔  وہ زیارت نامہ جو حضرت امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے جو امام صادق علیہ السلام سے ہم تک پہنچا ہے جو زیارت اربعین کے نام سے مشہور ہے۔
امام حسن عسکری علیہ فرماتے ہیں کہ مؤمن کی پانچ علامات ہیں
1 ۔ ایک دن میں اکیاون رکعت نمازیں پڑھنا۔،
2۔ نمازوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اونچی آواز کے ساتھ پڑھنا۔،
3۔ دائیں ہاتھ پہ عقیق کی انگوٹھی پہننا،
4۔ نماز میں پیشانی کو خاک پر رکھنا،
5۔ زیارت اربعین امام حسین علیہ السلام کا پڑھنا۔
حضرت آیت اللہ جوادی آملی اس روایت کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ زیارت اربعین کی اہمیت واجب اور مستحب نمازوں کے ردیف میں ہے۔ جس طرح سے نماز دین و شریعت کا ستون ہے ، زیارت اربعین و حادثہ کربلا ستون ولایت ہیں۔


منابع و حواجات 
1۔ يعقوب كلینی ، الکافی ، ج 1 ، ص 34۔
 2۔ علامہ مجلسی ، بحار الانوار ، ج 44 ، ص 329۔
3۔ ترجمہ فارسی کامل ایارات ، ص 430۔
4۔ امالی شیخ صدوق ، ج 2 ، ص 128۔
5۔ سفینہ البحار ، ج  2 ، ص 8۔
6۔ شیخ طوسی ، مصباح المتہجد ، ج 2 ، ص  714۔
7۔ شیخ طوسی ، مصباح المتہجد ، ج 2 ، ص 787۔
8۔ (شیخ طوسی ، مصباح المتہجد ، ج 2 ، ص 788۔
9۔ ( جوادی آملی ، شکوفایی عقل در پرتو نہضت حسینی ، ص 28

 


*زیارت کے آثار وفوائد احادیث کی روشنی میں*

مقدمہ:

زیارت ایک عملی عبادت ہے جس کے معنی ائمہ علیہم السلام اور دینی پیشواؤں  کی درگاہ میں حاضری دینا ہے یا ان کے مزارات اور قبور اطہر جو کہ مقامات مقدس اور شعائر اللہ میں سے ہیں پر حاضری اور اپنے عقیدت اور احترام کا اظہار کرنا ہے ۔ زیارت اسلام میں ایک پسندیدہ عمل و عبادت ہے جس کو طول تاریخ میں بالعموم مسلمانوں اور بالخصوص پیروان مکتب ولایت وامامت نے بہت اہمیت دی ہے۔ زیارت کی پیروان مکتب امام جعفر صادق علیہ السلام کے نزدیک ایک خاص مقام اور آثار معنوی ہیں اور آج کے اس دور میں زیارت حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و ائمہ علیہم السلام و زیارت خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکتب جعفری کی امتیازات میں سے ایک امتیاز ہے جس کو شیعیان مولا کائنات بھاری بھرکم رقم ادا کرکے اپنی زندگی کو ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر شرفیابی حاصل کرتے ہیں۔

مفہوم زیارت:

زیارت(زیارة) عربی زبان کا لفظ ہے جس کی اصل ز، و، ر ہے ۔(ابن منظور، لسان العرب )
 اہل لغت نے اس لفظ کے لۓ متعدد معانی ذکر کیے ہیں ان تمام معانی کا معنی ایک چیز کا دوسری چیز کی طرف مائل ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص مائل ہوتا ہے اسکو زائر کہتے ہیں۔

ثقافت اسلامی میں زیارت کی اہمیت و منزلت:

قرآن مجید کی بعض آیات سے  یہ معلوم  ہوتا ہے کہ قبور کی زیارت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زمانے میں ایک  مشروع اور جائز عمل تھا۔ سورہ توبہ کی آیہ 84 میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو منافقین کے جنازے نماز پڑھنا ان کے جنازے کے پاس کھڑا ہونا اور ان کے لۓ دعا کرنا، انکے قبر کے کنارے جانے سے منع کیا گیا ہے۔(وَ لاتُصَلِّ عَلی أَحَدٍ مِنْهُمْ ماتَ أَبَداً وَ لاتَقُمْ عَلی قَبْرِهِ إِنَّهُمْ کَفَرُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ ماتُوا وَ هُمْ فاسِقُون.)
ترجمہ: ان کے مردوں میں سے کسی پر ہرگز نماز نہ پڑھنا اور انکے قبر کے کنارے کھڑے نہ ہونا کیونکہ انہوں نے خداوند متعال اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انکار کیا ہے اور اس حالت میں کہ فاسق تھے مرگۓ ہیں۔
طبرسی نے مجمع البیان میں تصریح کی ہے کہ اس آیہ کی نہی دلالت کرتی ہے کہ قبر کے کنارے جانا ،دعا پڑھنا ایک مشروع اور جائز عمل ہے اگر جائز و مشروع نہ ہوتا تو خداوند فقط منافقین کے قبر کے پاس جانے سے منع نہ کرتا۔
خود سیرت پاک پیامبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کیونکہ آپ خود بعض قبور کی  زیارت کیا کرتے تھے ۔ کتاب تاریخ المدینہ المنورہ نے یہ نقل کیا ہے کہ آپ فتح مکہ کے بعد جب مدینہ تشریف لے جا رہے تھے تو اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا,, یہ میری ماں کی قبر مبارک ہے ، خداوند سے اپنی ماں کی زیارت کی دعا کی تھی خداوند نے میرے مقدر کردیا۔(ابن شبہ، تاریخ المدینہ المنورہ، ص 1)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کے استحباب کے بارے روایات فراوان ہیں حتی تواتر اور مورد توافق شیعہ وسنی ہیں۔( امینی ، الغدیر ، ج 5 ، ص 112، 113)۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان زمان قدیم سےآج تک زیارت پیامبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور زیارت اہل بیت کو بہت اہمیت دیتے ہیں حتی بعض شیعہ علم کلام کے متخصصین  امام معصوم مؤمنین کی روح اور دل پر تسلط رکھتا ہے ( شہید مطہری، خاتمییت ، ص 153)
ایسی طرح اکثر ائمہ علیہم السلام کی زیارت ناموں میں یہ جملے نقل ہوئے ہیں اَشهَدُ اَنَّک تَشهَدُ مَقامی وَ تَسمَعُ کلامی وترد سلامي.
ترجمہ:  میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ میرے وجود کو دکھتے ہو، میرے کلام کو سنتے ہو اور میرے سلام کا جواب دیتے ہو ۔(زیارت امام رضا ۔ مفاتیح الجنان )

آثار و فوائد زیارت :

زیارت کی مختلف صورتیں اور اقسام ہیں ۔ ہر صورت کی فرد پر خاص آثار مترتب ہوتی ہیں مثلا بیت اللہ کی زیارت کا فلسفہ، آداب اور آثار ہیں۔ ایسی طرح مؤمنین کی زیارت اور ان کے قبور کی زیارت جو کہ دوطرفہ ہے کے بھی بہت زیادہ برکات و فوائد ہیں اور صاحب قبر زیارت کرنے والے پر خوش ہوجاتا ہے۔(علامہ مجلسی ، بحار الانوار ، ج 6  ،ص 256)
لیکن زیارت پیامبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ائمہ اطہار جو کہ انسان کامل، خداوند متعال کے محبوب ترین بندے ، جو تقوی کے اس اوج پر ہیں کہ جو عصمت کبری کا حامل ہے، جن کو خداوند متعال کا قرب حاصل ہے،  وہ ہر گناہ اور خطا سے پاک ہیں ۔ اہل بیت  سے دوستی کرنا امر الہی ہے اور ان سے دشمنی خداوند متعال سے دشمنی کے مترادف ہے ۔ پس اہل بیت سے دوستی کے بغیر، اہل بیت کی ولایت کو قبول کیے بغیر قرب الہی و مقامات عالیہ تک پہنچنا محال ہے۔( شیخ عباس قمی ، مفاتیح الجنان  ، زیارت جامعہ کبیرہ)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی زیارت کے روایات اسلامی میں انسان کی فردی و اجتماعی زندگی میں  بہت زیادہ  آثار اور فوائد ذکر ہوئے ہیں اور ایسی طرح انسان کی اخروی زندگی میں بھی بے پناہ آثار ہیں ہم یہاں اختصار کے ساتھ چند ایک کو ذکر کرتے ہیں ۔

1 گناہوں کی بخشش :

 حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی زیارت کے آثار و فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ ان کی زیارت کرنے والے کے تمام گناہ معاف اور بخش دیۓ جاتے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خداوند متعال نے کچھ فرشتوں کو قبر مطہر حسین بن علی علیہ السلام پر مامور کیا ہے۔ جب کوئی شخص امام کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے تو خداوند اسکے گناہ ان فرشتوں کو دیتا ہے، جب وہ شخص زیارت کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو خداوند اسکے گناہ محو کرتا ہےاور جب دوسرا قدم رکھتا ہے تو پھر اسکے حسنات ونیکیوں کو دو برابر اضافہ کرتا ہے اور اس پر جنت واجب کرتا ہے۔اور جب زائر حرم اباعبد اللہ سے پلٹتا ہے تو ایک منادی ندا دیتا ہے کہ اے بندے خدا تم بہت خوش نصیب ہو، بے شک تم غنیمت اورسلامتی کے ساتھ لوٹے ہو۔ تمہارے گزشتہ سارے گناہ معاف اور بخش دیۓ گئے ہیں اپنے اعمال کو ابتداء سے شروع کرو۔(کامل ایارات )

2 : رضایت خداوند:

زیارت کے آثار اور فوائد میں سے ایک اثر اور فائدہ خالق کائنات کا زائرین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے راضی ہونا ہےجس كے بارے میں قرآن ارشاد کرتاہے ,,و رضوان من الله أكبر ،،(سورة توبة آية 72)۔
زائر کا ان تمام چیزوں کا تصدیق کرنا جن کا امام ایک زائر سے تقاضا کرتاہے اور ان چیزوں کو اس خاطر بجا لانا کہ مطلوب خداوند متعال ہیں۔ نتیجتا زائر خداوند متعال کی رضایت اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔( محمد مہدی  ، شوق دیدار ، ص 101)

3: طہارت حقیقت انسان:

ایک اہم ترین فائدہ زیارت کا یہ ہے کہ انسان  میں پاکیزگی آتی ہے اور وہ گناہوں کے نجاست و پلیدگی سے دور ہوتا ہے۔ آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ اپنی کتاب فلسفہ زیارت و آئین میں فرماتے ہیں کہ جس طرح سے انسان کی طبعیی زندگی میں پلیدگی اور کثافت سے طہارت ونظافت ظاہری ضروری ہے ایسی طرح پلیدگی و کثافت باطنی سےطہارت  باطنی بھی حکم ضروری فطرت و دین ہے۔ یقینا ولایت ائمہ علیہم السلام ایک ایسا عامل ہے جو انسان کو پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ اگر انسان ہر قسم کے فساد و پلیدگی سے دوری چاہتا ہے تو ولایت ائمہ علیہم السلام سے متصل ہوجائے کیونکہ ولایت ائمہ علیہم السلام انسان کو فساد اخلاقی ،اعتقادی اور ہر قسم کی کدورات سے پاک و مطہر کرتا ہے۔( جوادی آملی ، فلسفہ زیارت و آئین آن ، ص 1)۔

4: زیارت کا ثواب:

زیارت کے آثار و فوائد میں سے ایک مہم ترین اثر ثواب فراوان ہے جس کو روایات میں بیان کیا گیا ہے خاص کر زیارت سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا بہت زیادہ ثواب بیان ہوا ہے۔ امام علیہ السلام کی زیارت کے چند آثار یہ ہیں۔

1۔ زائر کے دنیاوی واخروی حاجات پوری ہوتی ہیں۔

2۔ زائرین کے گناہ معاف و بخش دیۓ جاتے ہیں۔

3۔ زائرین کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔

4۔  ایام زیارت امام کو انسان کی عمر میں حساب نہیں کیا جاتا ہے ۔

5۔ زائرین امام عالی مقام کو جوار پیامبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم و اہل بیت جگہ ملتی ہے۔

6۔ زائرین امام سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگے۔( جوادی آملی ، فلسفہ زیارت و آئین آن ، ص 139) 

5: امام کی معرفت :

زیارت ائمہ علیہم السلام کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ زیارت کرنے والے کو امام کی معرفت و پہچان ہوتی ہے ۔ امام کی معرفت چونکہ مقدمہ ہے خداوند متعال کی معرفت کے لۓ پس جو شخص امام کی معرفت حاصل کرتاہے اس کو خداوند کی معرفت بھی حاصل ہوتی ہے چونکہ زیارت اور متون زیارت میں ان عالی معارف کو بیان کیا گیا ہے جن کے ذریعہ انسان ان معارف مثل توحید عمیق اور صفات و اسماء  الہی سے آشنا ہوتا ہے ۔ یہ معارف امامت و لایت ائمہ علیہم السلام کے بغیر حاصل نہیں ہوتے ۔ پس  زیارت اولیاء الہی مقدمہ اور راستہ  ہے جس کے ذریعے خداوند متعال کی زیارت ، خداوند سے ارتباط اور تعلق وجودی قائم کرنا ممکن ہے۔چونکہ زیارت اور متون زیارت میں ائمہ علیہم السلام کے لۓ وہ صفات ذکر ہوئے ہیں جو خداوند متعال کی اسماء حسنہ اور صفات کمال و جمال کا مظہر ہیں۔ یعنی خداوند متعال کی صفات اور اسماء ذات رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ولی اللہ میں تجلی کرتے ہیں ( جوادی آملی ، فلسفہ زیارت و آئین آن ، ص 100)۔

6۔ شفاعت زائرین۔

ائمہ علیہم السلام کی زیارت کرنے کا ایک اثر یہ کہ ائمہ علیہم السلام کل یوم قیامت کے دن ان مؤمنین کی شفاعت کرینگے جنہوں نے ان کی زیارت کی ہو۔مرحوم شیخ صدوق نے اصول کافی میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ائمہ علیہم السلام میں سے ہر ایک شیعوں کے لۓ  خود اپنے اوپر ایک حق رکھتے اور اس حق کو اس وقت ایفاء کرتے ہیں جب ائمہ علیہم السلام کی قبور مطہرہ کی زیارت کریں۔ پس جو شخص بھی عشق ومحبت اور ان چیزوں  پر اعتقاد رکھتے ہوئے کہ  جن کو ائمہ علیہم السلام پسند کرتے ہیں انکی زیارت کرتا ہے تو ائمہ علیہم السلام کل بروز قیامت ان کی شفاعت کرینگے۔إِ

نَّ لِکُلِّ إِمَام عَهْداً فِی عُنُقِ أَوْلِیَائِهِ وَ شِیعَتِهِ وَ إِنَّ مِنْ تَمَامِ الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَ حُسْنِ الاَْدَاءِ زِیَارَةَ قُبُورِهِمْ

ترجمہ :  ائمہ علیہم السلام  میں سے ہر ایک اپنے دوستوں اور شیعوں کے لۓ  خود اپنے اوپر ایک حق رکھتے اور اس حق کو اس وقت کامل ایفاء کرتے ہیں جب ائمہ علیہم السلام کی قبور مطہرہ کی زیارت کریں۔( شیخ صدوق ، الکافی ، ج 4 ،  ص 567)۔

7 :  آخرت میں زائرین کی مدد : 

جو مؤمنین ائمہ علیہم السلام کی زیارت کرتے ہیں ائمہ اطہار بھی کل اپنے زائرین کی مشکلات میں ان کی مدد کو تشریف لائیں گے ۔ حضرت امام رضا علیہ السلام نے خود ارشاد فرمایا کہ جو بھی دور سے میری زیارت کرے اور دور سے زیارت کو آئے میں کل روز قیامت تین مقامات پہ اس کی مدد کو آؤں گا تاکہ اس کو مشکل سے نکال دوں گا۔
امام موسی بن جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں,,قَالَ الرِّضَا (ع) مَنْ زَارَنِي عَلَى بُعْدِ دَارِي أَتَيْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي ثَلَاثِ مَوَاطِنَ، حَتَّى أُخَلِّصَهُ مِنْ أَهْوَالِهَا إِذَا تَطَايَرَتِ الْكُتُبُ يَمِيناً وَ شِمَالًا وَ عِنْدَ الصِّرَاطِ وَ عِنْدَ الْمِيزَانِ،،
ترجمہ : جو دور سے میری زیارت کرے یوم قیامت میں تین بار اسکے پاس آؤنگا حتی اس شخص کو ان احوال سے نجات دونگا۔ وہ تین مقامات یہ ہیں

1 ۔ جب دائیں اور بائیں طرف سے نامہ اعمال دیۓ جائیں گے ۔

2۔ پل صراط کے عبور کے وقت۔

3۔ جب نامہ اعمال کو تولہ جائے گا یعنی حساب وکتاب کے موقع پر ۔
(کتاب عیون اخبار الرضا علیہ السلام،  ج 1 ، 2)

8: مرکزیت علم و تبلیغ دین: 
حرم ائمہ علیہم السلام طول تاریخ میں مراکز علم ،تبلیغ و ترویج دین ، اسلامی قیام اور تحریکوں کے مرکز اور مبدا قرار پائے ہیں۔ یہ تمام برکات و فیوضات زائرین کی رفت وآمد سے ناشی و ایجاد ہوتے ہیں۔
9 : ائمہ کی سیرت سے آشنائی 
زیارت کےآثار و فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ مؤمنین و زائرین جس امام کی زیارت پہ تشریف لے جاتے ہیں اس امام کی سیرت سے آشنا ہوجاتے ہیں۔
چونکہ قرآن مجید نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ائمہ اطہار کی سیرت مسلمانوں بالعموم اور مؤمنین بالخصوص کے لۓ نمونہ اور سرمشق قراردیا ہے ۔ خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے ,, لقد كان لكم فى رسول الله أسوة حسنة لمن كان يرجو الله واليوم الآخر وذكر الله كثيرا،،۔
ترجمه : یقینا رسول اللہ کی زندگی میں تمہارے لۓ بہترین اسوہ (نمونہ)  ہے انکے لئے جو خداوند اور روز قیامت پر امید رکھتے ہیں اور خداوند کو بہت یاد کرتے ہیں۔ ( سورہ احزاب  ،آیہ 21 )
10 انسان کی زندگی میں تبدیلی 
زیارت ائمہ علیہم السلام کا ایک نھایت اہم اثر و فائدہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اہل بیت کی زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں ان کی زندگی میں (اگر تھوڑی مدت کے لئے ہی کیوں نہ ہو) ایک تحول انقلاب آتا ہے ۔ انسان کسی بھی امام کی زیارت کے بعد س محسوس کرتا ہے کیونکہ ائمہ علیہم السلام کے قبور مطہرہ پر انسان کی تمام شرعی حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ  تمہارے نزدیک ایک ایسی قبر ہے کوئی حاجت مند وہاں سے خالی نہیں لوٹا مگر خداوند متعال نے اس کی سب مشکلات و سختیوں کو برطرف کیا اور اسکی حاجتوں کو پورا کیا۔( جوادی آملی، عبداللہ ، فلسفہ زیارت و آئین آن ، ص 153۔) 

 


*ظلمت سے نور تک کا سفر*



*فلسفه اور دین کا تعلق*


*آدابِ ماہِ محرم الحرام*


*سياست کا صحیح تصور*: *قسط اول* ✒️ : *ارشد حسین*
مصیبت امام حسین معصومین کی نگاہ میں: خدا وند متعال اس دنیا میں تمام انسانوں سے امتحان اور آزمائش لیتا ہے حتی اپنے مقرب ترین و محبوب ترین افراد و اشخاص سے بھی امتحان لیتا ہے ۔ پس آزمائش اور امتحان خداوند متعال کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے ۔ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ الذي خلق الموت والحياة ليبلوكم أيكم أحسن عملا وهو العزيز الغفور. انسان جتنا بڑا عہدہ رکھتا ہو اس سے امتحان بھی اس قدر بڑا ہوتا ہے اور پھر جس سے خداوند امتحان لے وہ منصب امامت
*شہادت حضرت علی (ع) کی نگاہ میں*: ✒️ : *ارشد حسین*
صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر: اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں امن اور جہاد دونوں کا تصور پایا جاتا ہے لیکن کن حالات اور شرائط میں جنگ لڑنی ہے اور کن حالات میں امن قائم کرنا ہے یہ ہادیان دین ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کیونکہ آئمۂ علیہم السلام کا یہ وظیفہ ہے اور وہ اپنے وظیفے کا مکمل علم رکھتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے لیکن امن اور جھاد دین مبین اسلام کے دو مضبوط ستون ہیں جن پر اسلام کی بلند و بالا عمارت قائم ہے ۔ صلح

تبلیغات

محل تبلیغات شما

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها

خاطرات من و حدیث کساء ابزار و تجهیزات