محل تبلیغات شما

حضرت زھراء (س) کے گھر پر حملہ ایک تاریخی حقیقت:
یوں تو تاریخ انسانی و تاریخ بشریت میں کچھ حقائق ایسے ہیں جن کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، انہیں تاریخی حقائق میں سے ایک حقیقت حضرت فاطمہ زہراء (س) کا گھر جلانا ہے ۔ حضرت فاطمہ زہراء(س) کے گھر پر ایک ایسا حملہ ہوتا ہے جسکے نتیجے میں خود جگر رسول اللہ (ص) کی شان اقدس میں گستاخی ہوئی یہ حقیقت  کسی سے پوشیدہ نہیں ،  اس واقعے کو اکثر اہل سنت کے معتبر علماء(مؤرخین و محدثین) نے ذکر کیا ہے ۔لیکن بعض  عقل اور فکر کے اندھے اس واقعے کو جھوٹ اور بے بنیاد قرار دینےکی پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ واقعہ تاریخ میں رونما نہیں ہوا، اور جن اشخاص کی طرف اس قضیہ کی نسبت دی جاتی ہے  انہوں نے یہ کام انجام نہیں دیا ۔
پس اہل سنت کی معتبر کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں کہ جو ثابت کرتی ہیں کہ ابوبکر نے اہل بیت (ع) کے بعض دشمنوں کے ساتھ مل کر ، بیت وحی پر حملہ کیا تھا اور اس مقدس گھر کو آگ لگائی تھی، حالانکہ اس وقت حضرت فاطمہ زہرا (س) اپنے بیٹوں اور رسول خدا (ص) کے نواسوں کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھیں۔
ہم اس مقالہ میں  شیعہ و سنی محدثین اور مورخین کے وہ تاریخی شواہد پیش کرینگے( البتہ کسی کی توہین مقصود نہیں فقط اس حقیقت کو بیان کرنا ہے) جو انہوں نے اپنی مکتوبات میں لکھا ہے جو اس بات پر دلیل ہیں کہ رسول اکرم (ص) کا اس دنیا سے تشریف لے جانے کے کچھ ہی دن بعد کچھ لوگ حضرت فاطمہ(س) کے دروازے پر نہ فقط  آگ اور لکڑیاں لے کر آئے ، نہ فقط  گھر کے دروازے کو لگائی بلکہ اس سانحہ کی وجہ سے حضرت حضرت زہراء (س) کو بہت صدمہ پہنچا اور بعض اشخاص سے آپ آخر عمر مبارک تک ناراض رہیں اور حضرت محسن شہید ہوئے حتی حضرت فاطمہ(ص) کی شھادت میں بھی یہ یہ امر مؤثر رها.

حضرت زہراء (س) کے گھر  کے جلانے کے متعلق جب ہم کتب تاریخ اور روایی کا مطالعہ کرتے ہیں تو تین قسم کی روایات ہمیں ملتی ہیں ۔

1۔ وہ روایات جو گھر کے جلانے کے متعلق ہیں۔

2- وہ روایات جو جناب ابوبکر کی گھر کے جلانے پر ندامت کے متعلق ہیں۔

3۔ وہ روایات جو حضرت محسن بن علی کی شھادت کے متعلق ہیں۔ اور یہ تینوں قسم کی روایات کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے اور ان تینوں قسم کی روایات کو تحت عنوان بیعت جناب ابوبکر یا قضیہ سقیفہ میں ملتی ہیں۔

1 . امام جوينی (متوفی 730 ہجری) :

عالم اہل سنت جوینی کی روایت میں کیونکہ صدیقہ طاہرہ کے مقتول ہونے کے بارے صراحت کی گئی ہے، اسی لیے سب سے پہلے اسی روایت کو ذکر کیا جا رہا ہے۔

جوینی ، کہ جو شمس الدین ذہبی کا بھی استاد ہے، اس نے رسول خدا (ص) سے ایسے روایت کو نقل کیا ہے کہ:

ایک دن رسول خدا بیٹھے ہوئے تھے کہ حسن ابن علی انکے پاس آئے، رسول خدا کی نگاہ جونہی اپنے نواسے حسن پر پڑی، آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے، پھر حسين ابن علی رسول خدا کے پاس آئے، رسول خدا نے دوبارہ گریہ کرنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد جناب فاطمہ اور حضرت امیر بھی وہاں آئے تو رسول خدا نے ان دونوں کو بھی دیکھتے ہی اشک بہانا شروع کر دیا۔ جب رسول خدا سے حضرت فاطمہ پر گریہ کرنے کے سبب کو پوچھا گیا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ:

وَ أَنِّي لَمَّا رَأَيْتُهَا ذَكَرْتُ مَا يُصْنَعُ بِهَا بَعْدِي كَأَنِّي بِهَا وَ قَدْ دَخَلَ الذُّلُّ في بَيْتَهَا وَ انْتُهِكَتْ حُرْمَتُهَا وَ غُصِبَتْ حَقَّهَا وَ مُنِعَتْ إِرْثَهَا وَ كُسِرَ جَنْبُهَا [وَ كُسِرَتْ جَنْبَتُهَا] وَ أَسْقَطَتْ جَنِينَهَا وَ هِيَ تُنَادِي يَا مُحَمَّدَاهْ فَلَا تُجَابُ وَ تَسْتَغِيثُ فَلَا تُغَاثُ . فَتَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَلْحَقُنِي مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَتَقْدَمُ عَلَيَّ مَحْزُونَةً مَكْرُوبَةً مَغْمُومَةً مَغْصُوبَةً مَقْتُولَة،

فَأَقُولُ عِنْدَ ذَلِكَ اللَّهُمَّ الْعَنْ مَنْ ظَلَمَهَا وَ عَاقِبْ مَنْ غَصَبَهَا وَ ذَلِّلْ مَنْ أَذَلَّهَا وَ خَلِّدْ فِي نَارِكَ مَنْ ضَرَبَ جَنْبَهَا حَتَّي أَلْقَتْ وَلَدَهَا فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ آمِين .

جب میں نے فاطمہ کو دیکھا تو مجھے ایک دم سے وہ تمام مظالم یاد آ گئے کہ جو میرے بعد اس پر ڈھائے جائیں گے۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ ذلت اسکے گھر میں داخل ہوئی ہے، اسکی حرمت کو پامال کیا گیا ہے، اسکے حق کو غصب کیا گیا ہے،اسکی میراث کو اس سے دور کیا گیا ہے، اسکے پہلو کو زخمی اور اسکے بچے کو سقط کیا گیا ہے، جبکہ وہ بار بار ندا اور فریاد کر رہی ہو گی: وا محمداه ! ،

لیکن کوئی بھی اسکی فریاد سننے والا نہیں ہو گا، وہ مدد کے لیے پکار رہی ہو گی، لیکن کوئی بھی اسکی مدد نہیں کرے گا۔

وہ میرے خاندان میں سے سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملے گی، اس حال میں میرے پاس آئے گی کہ وہ بہت محزون، غمگین اور شہید کی گئی ہو گی۔

یہ دیکھ کر میں کہوں گا کہ: خداوندا جس نے بھی اس پر ظلم کیا ہے، اس پر لعنت فرما، عذاب کر اس کو کہ جس نے اسکے حق کو غصب کیا ہے، ذلیل و خوار کر اسکو کہ جس نے اسے ذلیل کیا ہے اور جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رکھ ، جس نے اسکے پہلو کو زخمی کر کے اسکے بچے کو سقط کیا ہے۔ رسول خدا کی اس لعنت و نفرین کو سن کر ملائکہ آمین کہیں گے۔(1)

فرائد السمطين ج2 ، ص 34 و 35

ذہبی نے اپنے استاد امام الحرمین جوینی کے حالات کے بارے میں کہا ہے کہ:

وسمعت من الامام المحدث الاوحد الاكمل فخر الاسلام صدر الدين ابراهيم بن محمد بن المؤيد بن حمويه الخراساني الجويني . وكان شديد الاعتناء بالرواية وتحصيل الاجزاء حسن القراءة مليح الشكل مهيبا دينا صالحا .

اور میں نے بے نظیر امام، محدث کامل، فخر اسلام صدر الدين ابراہيم ابن محمد ابن المويد ابن حمويہ الخراسانی الجوينی سے روايت کو  سنا تھا ۔۔۔۔۔ وہ روایات اور احادیث کی کتب کو بہت زیادہ اہمیت دیا کرتے تھے، وہ خوبصورت چہرے اور اچھی آواز کے مالک تھے کہ جو با ہیبت، دین دار اور ایک صالح انسان تھے۔(2)

تذكرة الحفاظ ج 4 ، ص 1505- 1506 ، رقم 24 .

 

2۔ علامہ مجلسی بحار الانوار میں لکھتے ہیں :
أقبل عمر فى جمع كثير إلى منزل على بن أبي طالب فطالبه بالخروج فأبى فدعا عمر بحطب ونار .،،
عمر بہت سارے افراد کے ساتھ علی بن ابی طالب کے گھر آئے اور امام سے کہا کہ وہ گھر سے باہر آجائیں امام باہر نہیں آئے  اس دوران عمر نے لکڑی اور آگ طلب کیا۔(3)

3۔ شھرستانی الملل ولنحل میں لکھتے ہیں:
وما كان فى الدار غير على وفاطمة والحسن والحسين أحرقوا دارها بمن فيها.
اس دن حضرت علی حضرت فاطمہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کے علاوہ کوئی گھر میں نہیں تھا اس دوران عمر نے حکم دیا کہ اس گھر کو گھر والوں کے ساتھ آگ لگا دو۔ (4)
طبری لکھتے ہیں :
والله لاحرقن عليكم .
خدا کی قسم آگ کو تمہارے اوپر مسلط کردوں گا۔(5)
اس دوران حضرت زہراء (س) گھر سے نکلیں اور پست دروازے پر رکیں۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں۔
خرجت فاطمة بنت رسول الله(ص) إليهم  فوقفت على الباب لا عهد لى بقوم أسوأمحضرامنكم تركتم رسول الله(ص) جنازة بين أيدينا وقطعتم أمركم فيما بينكم فلم تؤمرونا ولم تروا لنا حقنا كأنكم لم تعلموا ما قال يوم غدير خم والله لقد عقد له يومئذ الولاء ليقطع منكم بذلك منها الرجاء  ولكنكم قطعتم الأسباب بينكم و بين نبيكم والله حسيب بيننا وبينكم فى الدنيا والأخرة.
میں اپنی پوری زندگی میں تم جیسی بے وفا و بے وفاتر قوم کو نہیں پہچانتی کہ رسول اللہ (ص) کے جنازے کو ہمارے سامنے چھوڑ کر اپنے کام میں سرگرم اور خلافت کو حاصل کرنے لگے گۓ ، نہ ہم سے کوئی مشورہ کیا اور نہ ہمارے حق کے قائل ہوۓ، گویا تم غدیر خم کے بارے کچھ نہیں جانتے۔ خدا کی قسم اس دن امر ولایت کو محکم کیا کہ تمہارے لئے کو طمع و امید نہیں چھوڑی لیکن تم نے اس کی رعایت نہیں کی  اور ہر رشتہ ورابطہ کو اپنے پیغمبر سے قطع کیا۔  البتہ خداوند متعال ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرےگا۔( 6)
4۔ ابن عبد ربہ عقد الفرید میں لکھتے ہیں : 
فأقبل بقبس من نار على أن يضرم عليهم  الدار
عمر نے آگ کا ایک شعلہ لے کر حضرت زہراء (س) کے گھر کو جلانے کا قصد کیا۔(5)
شہرستانی لکھتے ہیں عمر نے کہا :
أحرقو ا دارها بمن فيها 
گھر کو  گھر والوں کے ساتھ جلا دو۔ (7)
اس وقت حضرت زہرا ء (س) نے عمر کو دیکھا اور عمر سے کہا :
يا ابن الخطاب أجئت لتحرق دارنا.؟
اے ابن خطاب کیا تم ہمارا گھر جلانے آئے ہو۔؟
حضرت عمر نے کہا:
نعم أو تدخلوا فيما دخلت فيه الأمة
جى ! مگر یہ کہ ابوبکر کی بیعت کرو جسے کہ امت نے بیعت کی ہے۔(8)
اس وقت حضرت زہراء (س) نے درگاہ الھی  میں شکایت کرتیں ہیں اور فرماتیں ہیں!
يا أبتاه! يا رسول الله (ص)! أنظر ماذا لقينا بعدك من ابن الخطاب وابن أبي قحافة ،، 
اے بابا ! اے رسول اللہ (ص) ! دیکھو آپ کے بعد ہم نے ابن خطاب اور ابن ابی قحافہ کس قدر ظلم دیکھے (9)

ابن عبد ربّہ نے کتاب العقد الفريد میں لکھا ہے کہ:

الذين تخلّفوا عن بيعة أبي بكر: عليّ والعباس، وابير، وسعد بن عبادة، فأمّا علي والعباس وابير فقعدوا في بيت فاطمة حتّي بعث اليهم أبو بكر عمر بن الخطاب ليخرجوا من بيت فاطمة وقال له: إن أبوا فقاتلهم . فأقبل عمر بقبس من نار علي أن يضرم عليهم الدار فلقيته فاطمة فقالت: يابن الخطاب ! أجئت لتحرق دارنا ؟ قال : نعم أو تدخلوا فيما دخلت فيه الأمة فخرج علي حتي دخل علي أبي بكر .

ابوبکر نے عمر ابن خطاب کو بھیجا تا کہ جائے اور ان لوگوں کو فاطمہ کے گھر سے باہر نکال دے اور اسے کہا کہ: اگر وہ تمہاری بات ماننے سے انکار کریں اور گھر سے باہر نہ آئیں تو انکے ساتھ جنگ کرے۔ عمر ایک جلتی ہوئی مشعل ہاتھ میں لیے فاطمہ کے گھر کو آگ لگانے کی نیت سے ، ان لوگوں کی طرف گیا۔ فاطمہ نے کہا: اے خطاب کے بیٹے کیا تو ہمارے گھر کو آگ لگانے کے لیے آیا ہے ؟ عمر نے کہا: ہاں، مگر یہ کہ تم بھی وہی کام (ابوبکر کی بیعت) کرو جو اس امت نے انجام دیا ہے۔۔۔۔۔(12)

5 . علامہ بلاذری (متوفی 270 ہجری) :

إن أبابكر آرسل إلي علي يريد البيعة ، فلم يبايع ، فجاء عمر و معه فتيلة . فتلقته فاطمة علي الباب فقالت فاطمة : يابن الخطاب ! أتراك محرّقا عليّ بابي ؟! قال : نعم ، و ذلك أقوي فيما جاء به أبوك .

ابوبکر نے کچھ لوگوں کو علی سے بیعت لینے کے لیے بھیجا، جب علی نے ابوبکر کی بیعت نہ کی تو اس نے عمر کو حکم دیا کہ جاؤ اور علی کو میرے پاس لے کر آؤ۔ عمر ہاتھ میں آگ جلتی مشعل لے کر فاطمہ کے گھر کی طرف گیا۔ فاطمہ گھر کے دروازے کے پیچھے آئی اور کہا: اے خطّاب کے بیٹے ! کیا تو میرے گھر کے دروازے کو آگ لگانا چاہتا ہے ؟ عمر نے کہا: ہاں ! میرا یہ کام جو کچھ (شریعت) تمہارے والد لے کر آئے تھے، اسکو محکم تر کرے گا(13)

6 . ابن قتيبہ دينوری (متوفی 276 ہجری) :

وإن أبا بكر رضي الله عنه تفقد قوما تخلفوا عن بيعته عند علي كرم الله وجهه ، فبعث إليهم عمر ، فجاء فناداهم وهم في دار علي ، فأبوا أن يخرجوا فدعا بالحطب وقال : والذي نفسه عمر بيده . لتخرجن أو لأحرقنها علي من فيها ، فقيل له : يا أبا حفص ، إن فيها فاطمة ؟ فقال : وإن
ابوبکر نے ، ان لوگوں کہ جہنوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی، وہی کہ جو علی کے پاس جمع ہوئے تھے، عمر کو ان لوگوں کے پاس بھیجا، عمر نے انکو بلند آواز سے پکارا، لیکن انھوں نے اسکی کوئی پروا نہیں کی اور گھر سے باہر نہ نکلے۔ عمر نے ایندھن منگوایا اور کہا: اس خدا کی قسم کہ جسکے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، گھر سے باہر آؤ، ورنہ میں اس گھر کو سب گھر والوں سمیت آگ لگا دوں گا۔ عمر کو کہا گیا کہ اے ابا حفص ! اس گھر میں اس وقت فاطمہ بھی موجود ہیں، عمر نے کہا: ہوتی ہے تو ہوتی رہے !!!(14)

7. ابن ابی شيبہ (متوفی 239 ہجری) :

عالم اہل سنت ابن ابی شیبہ ، محمد ابن اسماعیل بخاری کا استاد ہے، اس نے اپنی کتاب المصنف میں لکھا ہے کہ:

أنه حين بويع لأبي بكر بعد رسول الله ( ص ) كان علي وابير يدخلان علي فاطمة بنت رسول الله ( ص ) فيشاورونها ويرتجعون في أمرهم ، فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتي دخل علي فاطمة فقال : يا بنت رسول الله ( ص ) ! والله ما من أحد أحب إلينا من أبيك ، وما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك ، وأيم الله ما ذاك بمانعي إن اجتمع هؤلاء النفر عندك ، إن أمرتهم أن يحرق عليهم البيت ، قال : فلما خرج عمر جاؤوها فقالت : تعلمون أن عمر قد جاءني وقد حلف بالله لئن عدتم ليحرقن عليكم البيت وأيم الله ليمضين لما حلف عليه

جب مدینہ کے لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی، علی اور زبیر کے فاطمہ کے گھر میں اسی بارے میں گفتگو اور مشورہ کرنے کے بارے میں جب عمر ابن خطاب کو پتا چلا تو وہ فاطمہ کے گھر آیا اور کہا: اے بنت رسول اللہ ! ہمارے لیے محبوب ترین انسان تمہارے والد ہیں اور انکے بعد خود تم !!! لیکن خدا کی قسم یہ محبت مجھے اس کام سے منع نہیں کرے گی کہ تمہارے گھر میں جمع ہونے والوں کی وجہ سے ، میں حکم دوں کہ اس گھر کو آگ لگا دیں۔ [یعنی میں آپکے رسول خدا کی بیٹی ہونے کے باوجود بھی، اس گھر کو آگ لگا دوں گا]

عمر یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ جب علی ، زبیر کے ساتھ اپنے گھر واپس آئے تو بنت رسول خدا نے علی اور زبیر کو بتایا کہ: عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر آپ لوگ دوبارہ اس گھر میں اکٹھے ہوئے تو میں اس گھر کو آگ لگا دوں گا، (حضرت زہرا نے کہا) خدا کی قسم ! وہ اپنی قسم پر عمل کر کے ہی رہے گا !

المصنف ، ج8 ، ص 572

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حضرت زہراء (س) کے گھر پر حملہ ایک تاریخی حقیقت :

این حسین کیست که عالم همه دیوانه او است

اربعین حسینی اور ہماری ذمہ داریاں

کے ,کو ,اور ,نے ,میں ,کی ,رسول خدا ,کے گھر ,عمر نے ,گھر کو ,خدا کی ,أجئت لتحرق دارنا ,حضرت فاطمہ زہراء

مشخصات

تبلیغات

محل تبلیغات شما

آخرین ارسال ها

برترین جستجو ها

آخرین جستجو ها

اطلاعات و تحلیل وقایع فوتبال ایران فروشگاه اینترنتی کاشف شاپ